عالمی بستی
فیصل شہزاد ایک مایوس امریکی یا دہشتگرد پاکستانی؟
گزشتہ ہفتہ میں نے سوچا تھا کہ ان بچیوں پر یہ کالم لکھوں گا جنھیں پاکستانی مرد بیاہ کر امریکہ لے آتے ہیں اور وہ ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ میں نے کالم لکھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ امریکی میڈیا پر فیصل شہزاد کی خبر نے دھوم مچا دی۔ جس ٹی وی چینل کو دیکھو اسی کی تصویریں اور اسی کی خبر۔ لمحوں میں برج پورٹ کینیٹی کٹ، محب بندہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خاں اور نیو یارک کے درمیان خبر رساں ایجنسیوں اور میڈیا نیٹ ورکس نے برقی لہروں کا ا یک جال سا بن دیا۔ فیصل شہزاد کی زند گی کا لمحہ لمحہ کھنگال کر رکھ دیا گیا۔ اس کے دوست احباب سے لیکر اس کے عزیز و اقربا ء کسی کو نہ چھوڑا گیا۔ یہ تمام وقت امریکہ میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن پر ایک عزاب بن کر گزرتا رہا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آبا ئی وطن سے ہزاروں میل دور اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ایک مناسب زندگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں دن رات اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اپنی پاکستانی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے امریکی معاشرے میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ ادھر مغربی میڈیا کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس سے مسلمان یا پاکستانی شناخت کی ساکھ متاثرنہ ہوتی ہو۔
فیصل شہزاد کی کہانی مسلمان شدت پسند یا مسلمان دہشت گرد کی کہانی سے پہلے ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جس نے "امریکن ڈریم" کے تعاقب میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا۔ پا کستان کے خوشحال متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے پاکستان میں پرائیویٹ امریکی یونیورسٹیوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ آکر پہلے آئی ٹی میں گریجویشن کیا اور پھر ایم بی اے کر کے امریکی فرم سے ایچ ون ویزہ کروا کر یہیں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 2004ء میں پاکستانی امریکن ھما میاں سے شا دی کرنے کے بعد گرین کارڈ حاصل کیا اور اپریل 2009ء میں امریکی شہریت اختیار کی۔ اس دوران میں ان دونوں کے یہاں دو چاند سے بچے تولد ہوئے اور انھوں نے ایک سنگل فیملی گھر بھی خرید لیا۔
یہاں تک فیصل شہزاد کا امریکی خواب جسے انگریزی میں کہتے ہیں " پکچر پرفیکٹ" نظر آ رہا تھا۔ مگر پھر محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں آنے والے معاشی بحران نے اس نوجوان کی ہنستی بولتی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مورگیج کمپنی کے تقاضوں اور دوسرے اخراجات نے اس کی گھریلو زندگی درہم برہم کر دی۔ ستمبر 2009ء میں چیس بینک نے اس پر 218400$ کا دعویٰ دائر کردیا۔ بینک نے اس سے اس کا گھر چھین لیا۔ اسی سال اس نے اپنی نوکری سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ غالباۤ اس کی کمپنی سے بھی اس کا جھگڑا چل رہا تھا۔ یہ کہانی آج کے امریکہ میں صرف فیصل شہزاد کی کہانی نہیں بلکہ بےشمار امریکیوں کی کہانی ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک سیاہ فام امریکی نے انہی پریشانیوں کی وجہ سے اپنا ہی گھر بم سے اڑا دیا تھا۔ ایسے ہی لوگوں کی یرمغال بنانے اور اندھادھند فائرنگ کرکے لوگوں کو ہلاک کرنے کی کہانیاں آئے دن منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔ امریکی معیشت کے اس بحران نے بے شمار افراد کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ جس کا مظاہرہ وہ انتقامی کاروائی کی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہی کام کسی سفیدفام یا سیاہ فام امریکی نے کیا ہوتا تو کہانی کا یہ رخ بھی دنیا کے سامنے آتا بلکہ یہی رخ دکھایا جاتا۔ مگر امریکی میڈیا کا دوہرا معیار ایک مرتبہ پھر واضح طور پر نظر آ رہا ہے اور فیصل شہزاد کی شناخت ایک نفسیاتی اور زہنی دباؤ کا شکار امریکی کے بجائے پاکستانی اور مسلمان دہشت گرد کے طور پر ابھاری جا رہی ہے۔ یون تو امریکی صحافی اور رپورٹر بال کی کھال نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں مگر جب مسلمانوں یا پاکستانیوں کو بدنام کرنا مقصود ہو تو بصارت اور بصیرت دونوں ہی کو کہیں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔
2001ء کے بعد سے آج تک پاکستان اور پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف ہیں۔ پاکستان امریکہ کی لڑائی اپنی گلیوں اور چوباروں میں لڑ رہا ہے۔ ہزاروں بچے، بوڑھے اور جوان اس جنگ کی بھیںٹ چڑھ چکے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان میں کہیں نہ کہیں دھماکہ نہ ہوتا ہو۔ کسی ماں کی گود اور کسی بیٹی کا سہاگ نہ اجڑتا ہو۔ اس پر ستم یہ ہے کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی نژاد باشندے اس معاشرے کیلیے اپنی تمام تر خدمات کے باوجود ان واقعات کے بعد ایک عجیب سی شرمندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کی اس جانبدارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے جگہ جگہ صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ نجانے ہم خود کیوں اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں۔ نہ تو دہشت گردی کا کوئی مزھب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک پھر اسے کیوں ہم پر تھوپا جاتا ہے اور ہم کیوں اسے اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں؟ ۔۔۔ وہ کیا عوامل ہیں جو فیصل شہزاد جیسے نوجوانوں کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا آلہ کار بننے پر اکساتے ہیں؟ کیا فیصل شہزاد کا گھناؤنا مجرمانہ فعل ان قوتوں کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں ہے جو خود امریکی معاشرے کی اچھی قدروں کو تباہ و برباد کرنے کے در پر ہیں؟ ان سوالوں کا جواب واضح اور عیاں ہے مگر وہ چشمِ بینا کہاں سے آئے جو غیر جانبداری سے حالات و مضمرات کا آفاقی جائزہ لے سکے۔
ادھر امریکن سوسائیٹی فار مسلم اڈوانسمنٹ اور کارڈ وبہ انیشیٹو نامی دو مسلمان اداروں نے نیو یارک میں گراؤنڈ زیرو کے قریب سو ملین ڈالر کی مالیت سے ایک تباہ شدہ مسجد کی جگہ قرطبہ مرکز کے نام سے عظیم الشان مسجد اور کمیونٹی سینٹر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان اداروں کی ترجمان ڈیزی خان کا کہنا ہے کہ یہ مرکز صحیح اسلامی قدروں کو فروغ دینے اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کیلیے قائم کیا جارہا ہے۔ نو گیارہ سانحہ کے بہت سے متاثرین اس مرکز کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں مگر دوسرے بہت سے امریکی اسے حالات کے سدھار کا ایک ذریعہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ڈیزی خان اور ان کے متزکرہ بالا دو ادارے کس حد تک دوسری بڑی مسلمان تنظیموں کی حمایت حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ مگر ان کا یہ عمل امریکی مسلمانوں کی اس کوشش کی نشاندہی کرتا نظر آتا ہے جو حالات کو معمول پر لانے کےلیے وہ کر رہے ہیں۔
فیصل شہزاد جیسے حالات کا شکار ذہنی و نفسیاتی مریضوں کی انفرادی حرکتوں کو مسلمانوں یا پاکستانیوں سے منسوب کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہےاور امریکہ میں مقیم دوسری قومیتوں کے لوگوں کی طرح پاکستانی امریکن اور مسلمان امریکن اس گھناؤنے جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔