Saturday, November 17, 2012

غزہ میں آگ اور خون کا کھیل اور امریکہ میں جشن فتح


 تماشہ مرے آگے۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مجاہد غازی کے قلم سے


غزہ میں آگ اور خون کا کھیل، امریکہ کا اسلحہ اور ہمدردیاں ظالموں کے ساتھ۔ جیت کا جشن جاری

صدر ابامہ کی فتح کا جشن منانے والےکیا ان سے غزہ کے عوام سے انصاف کا مطالبہ کریں گے؟

جہاد مشراوی اپنے ۱۱ ماہ کے بیٹے کی مسخ شدہ لاش کو اپنے سینے سے لگائے دنیا سے سوال کر رہا تھا کہ آخر اس کے بیٹے کا کیا قصور تھا جس کی سزا اسے ملی؟ غزہ میں بی بی سی کا یہ نمائندہ غم سے نڈھال اسرائیل کی جارحیت کا تازہ ترین شکار تھا۔اسرائیلی طیاروں کی اندھا دھند بمباری نے اس معصوم سمیت جہاد کے گھر کے دو اور لوگوں کی جان لے لی تھی۔ گزشتہ بدھ سے شروع ہوئی بمباری نے بے شمار بے قصور بچوں اور عورتوں کو شہید کر دیا ہے۔ بےشمار شہری زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیل اور غزہ کے درمیاں یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ بدھ کو اسرائیلی تیاروں نے بلا کسی اشتعال کے ایک  حملے میں حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ احمد جباری اور ان کے نائب کو شہید کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ احمد جباری نے گزشتہ پانچ برسوں میں حماس کے جنگجوئوں کو اسرائیل پر میزائیل حملوں سے باز رکھا تھامگر اسرائیل کی مہم جو سیاسی قیادت نے آنے والے الیکشن میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے یہ نا عاقبت اندیش اقدام کیا۔ اس کے جواب میں حماس کے جنگجوئوں نے انتقام کے طور پر اسرائیل پر میزائیلوں سے حملہ کر دیا جس کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے غزہ کے معصوم شہریوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑ دیا ۔  ستم یہ ہے کہ فاکس نیوز جیسے اسلام دشمن مغربی میڈیا نے اسے حماس کی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے اسرائیل کے اقدام کو دفاعی حکمت عملی قرار دے کر تصویر کا ایک رخ دکھانا شروع کر دیا۔

مجھے پانچ سال پہلے کا وہ زمانہ یاد آگیا جب کچھ اسی شدت سے صیہو نیت کے علم برداروں نے غزہ کے نہتے شہریوں پر فضائی اور زمینی حملہ کرکے آگ اور خون کا وہ بازار گرم کیا تھا جس نے اس شہر کو تباہ اور برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اس پر ستم یہ تھا کے چاروں طرف سےگھیرا تنگ کر کے کسی بھی قسم کی امداد کو  ناممکن بنا دیا گیا تھا۔اس وقت اسلامک میڈیکل ایسوسی ایش امریکہ کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے جان جونکھوں میں ڈال کر غزہ کے زخمیوں کی مدد کی تھی اور الشفاء ہسپتال میں ہنگامی آپریشنوں کے ذریعہ سینکڑوں زخمیوں کی جان بچائی تھی۔ ان کی ٹیم اس وقت امریکہ سے پہنچنے والی پہلی ٹیم تھی۔  ہمارے اپنے شہر شکاگو کے نوجوان ڈاکٹر عمران قریشی نے غزہ سے براہ راست انٹرویو دیتے ہوئے اس ناچیز کے ریڈیو پروگرام میں اسرئیلی جارحیت کا آنکھوں دیکھا حال سنایا تھا۔ گزشتہ رمضان المبارک میں جیو ٹی وی کے ٹیلی تھون میں ڈاکٹر اسماعیل مہر اور ڈاکٹر سعید اختر نے مزید اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امانا ریلیف  کے الشفاء ہسپتال غزہ سے مستقل رابطے اور فنی اور میڈیکل آلات کی شکل میں مستقل جاری امداد کا ذکر کیا تھا۔ گو کے اسرائیل کی جارحیت ایک بار پھر عفریت بن کر غزہ کے معصوم اور بے کس انسانوں کو نگلنے کے در پہ ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ اس حملے کے دوران مصر کے وزیر اعظم ہشام قندیل نے غزہ کا دورہ کیا۔ الشفاء ہسپتال میں جا کر نہ صرف مریضوں کی عیادت کی بلکہ غزہ کے شہریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یقین دلایا کہ مصر کے عوام اس کڑے وقت میں انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔صرف وہی نہیں ان کے فوراً بعد  عرب میڈیکل یونین کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمنیم ابو الفتح نے، جو گزشتہ مصری انتخابات میں صدارتی امیدوار بھی تھے، ڈاکٹروں کے ایک وفد کے ہمراہ غزہ کا دورہ کیا اور طبی اور غیر طبی امداد کی پیشکش کی۔ انہوں نے اسرئیلی جارحیت کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہا کےاگر دنیا نے کچھ نہ کیا تو ان معصوم بچوں کے خون کی ذمہ داری انسانیت پر عائد ہوگی۔ سینکڑوں مصری نوجوانوں نے رفاح کا رخ کیا ہے تاکہ وہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے شانہ بشانہ اسرئیل کی جارحیت کا مقابلہ کریں اور اس مشکل وقت میں امدادی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ اردن میں جہاں پہلی مرتبہ مہنگائی اور کرپشن سے تنگ عوام اپنے بادشاہ اور اس کی پٹھو  حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں بھرپور انداز میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بحی احتجاج کر رہے ہیں۔ یہی حال نہ صرف آس پاس کے مسلم ممالک کے عوام کا ہے بلکہ دنیا بھر میں امن دوست عوام اس تازہ جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں کہیں کھل کر اور کہیں دبے لفظوں میں اسرئیلی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کر رہی ہیں مگر ہماری اپنی حکومت جسے ہم نے خود ابھی کچھ ہی دن پہلے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا تھا، کھل کر اسرائیل کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اسے ایک دفاعی اقدام قرار دے رہی ہے۔ وہ لوگ جو اب تک جشن فتح منانے میں پیش پیش ہیں اور راقم سمیت اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو اس جشن میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں اور وہ مسلمانوں کے لیڈر جو ای میلوں اور ذاتی ٹیلی فون کالوں کے ذریعہ اصرار کر رہے ہیں کہ ہم صدر ابامہ کو ان کی جیت پر مبارکباد دیں کیا اتنی جرات اور ہمت رکھتے ہیں کے صدر ابامہ اور جیتے ہوئے سیاستدانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے کہیں کہ وہ جانبداری اور  سرد مہری کا لبادہ اتار کر غزہ کے مظلوم انسانوں کا ساتھ دیں اور اسرائیل کو مجبور کریں کہ وہ اس جارحیت سے باز آجائے۔ یہ ان کے امتحان کا وقت ہے ورنہ ڈاکٹرعبدل منیم ابو الفتح کی طرح   ہم  یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ غزہ کے معصوم بچوں کے خون سے ان کے ہاتھ بھی رنگے ہوئے ہیں۔