Monday, May 10, 2010

فیصل شہزاد ایک مایوس امریکی یا دہشتگرد پاکستانی؟


عالمی بستی

فیصل شہزاد ایک مایوس امریکی یا دہشتگرد پاکستانی؟

گزشتہ ہفتہ میں نے سوچا تھا کہ ان بچیوں پر یہ کالم لکھوں گا جنھیں پاکستانی مرد بیاہ کر امریکہ لے آتے ہیں اور وہ ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ میں نے کالم لکھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ امریکی میڈیا پر فیصل شہزاد کی خبر نے دھوم مچا دی۔ جس ٹی وی چینل کو دیکھو اسی کی تصویریں اور اسی کی خبر۔ لمحوں میں برج پورٹ کینیٹی کٹ، محب بندہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خاں اور نیو یارک کے درمیان خبر رساں ایجنسیوں اور میڈیا نیٹ ورکس نے برقی لہروں کا ا یک جال سا بن دیا۔ فیصل شہزاد کی زند گی کا لمحہ لمحہ کھنگال کر رکھ دیا گیا۔ اس کے دوست احباب سے لیکر اس کے عزیز و اقربا ء کسی کو نہ چھوڑا گیا۔ یہ تمام وقت امریکہ میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن پر ایک عزاب بن کر گزرتا رہا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آبا ئی وطن سے ہزاروں میل دور اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ایک مناسب زندگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں دن رات اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ اپنی پاکستانی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے امریکی معاشرے میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ ادھر مغربی میڈیا کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس سے مسلمان یا پاکستانی شناخت کی ساکھ متاثرنہ ہوتی ہو۔

فیصل شہزاد کی کہانی مسلمان شدت پسند یا مسلمان دہشت گرد کی کہانی سے پہلے ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جس نے "امریکن ڈریم" کے تعاقب میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا۔ پا کستان کے خوشحال متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے پاکستان میں پرائیویٹ امریکی یونیورسٹیوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ آکر پہلے آئی ٹی میں گریجویشن کیا اور پھر ایم بی اے کر کے امریکی فرم سے ایچ ون ویزہ کروا کر یہیں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 2004ء میں پاکستانی امریکن ھما میاں سے شا دی کرنے کے بعد گرین کارڈ حاصل کیا اور اپریل 2009ء میں امریکی شہریت اختیار کی۔ اس دوران میں ان دونوں کے یہاں دو چاند سے بچے تولد ہوئے اور انھوں نے ایک سنگل فیملی گھر بھی خرید لیا۔

یہاں تک فیصل شہزاد کا امریکی خواب جسے انگریزی میں کہتے ہیں " پکچر پرفیکٹ" نظر آ رہا تھا۔ مگر پھر محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں آنے والے معاشی بحران نے اس نوجوان کی ہنستی بولتی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مورگیج کمپنی کے تقاضوں اور دوسرے اخراجات نے اس کی گھریلو زندگی درہم برہم کر دی۔ ستمبر 2009ء میں چیس بینک نے اس پر 218400$ کا دعویٰ دائر کردیا۔ بینک نے اس سے اس کا گھر چھین لیا۔ اسی سال اس نے اپنی نوکری سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ غالباۤ اس کی کمپنی سے بھی اس کا جھگڑا چل رہا تھا۔ یہ کہانی آج کے امریکہ میں صرف فیصل شہزاد کی کہانی نہیں بلکہ بےشمار امریکیوں کی کہانی ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک سیاہ فام امریکی نے انہی پریشانیوں کی وجہ سے اپنا ہی گھر بم سے اڑا دیا تھا۔ ایسے ہی لوگوں کی یرمغال بنانے اور اندھادھند فائرنگ کرکے لوگوں کو ہلاک کرنے کی کہانیاں آئے دن منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔ امریکی معیشت کے اس بحران نے بے شمار افراد کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ جس کا مظاہرہ وہ انتقامی کاروائی کی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہی کام کسی سفیدفام یا سیاہ فام امریکی نے کیا ہوتا تو کہانی کا یہ رخ بھی دنیا کے سامنے آتا بلکہ یہی رخ دکھایا جاتا۔ مگر امریکی میڈیا کا دوہرا معیار ایک مرتبہ پھر واضح طور پر نظر آ رہا ہے اور فیصل شہزاد کی شناخت ایک نفسیاتی اور زہنی دباؤ کا شکار امریکی کے بجائے پاکستانی اور مسلمان دہشت گرد کے طور پر ابھاری جا رہی ہے۔ یون تو امریکی صحافی اور رپورٹر بال کی کھال نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں مگر جب مسلمانوں یا پاکستانیوں کو بدنام کرنا مقصود ہو تو بصارت اور بصیرت دونوں ہی کو کہیں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔

2001ء کے بعد سے آج تک پاکستان اور پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف ہیں۔ پاکستان امریکہ کی لڑائی اپنی گلیوں اور چوباروں میں لڑ رہا ہے۔ ہزاروں بچے، بوڑھے اور جوان اس جنگ کی بھیںٹ چڑھ چکے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان میں کہیں نہ کہیں دھماکہ نہ ہوتا ہو۔ کسی ماں کی گود اور کسی بیٹی کا سہاگ نہ اجڑتا ہو۔ اس پر ستم یہ ہے کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی نژاد باشندے اس معاشرے کیلیے اپنی تمام تر خدمات کے باوجود ان واقعات کے بعد ایک عجیب سی شرمندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کی اس جانبدارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے جگہ جگہ صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ نجانے ہم خود کیوں اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں۔ نہ تو دہشت گردی کا کوئی مزھب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک پھر اسے کیوں ہم پر تھوپا جاتا ہے اور ہم کیوں اسے اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں؟ ۔۔۔ وہ کیا عوامل ہیں جو فیصل شہزاد جیسے نوجوانوں کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا آلہ کار بننے پر اکساتے ہیں؟ کیا فیصل شہزاد کا گھناؤنا مجرمانہ فعل ان قوتوں کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں ہے جو خود امریکی معاشرے کی اچھی قدروں کو تباہ و برباد کرنے کے در پر ہیں؟ ان سوالوں کا جواب واضح اور عیاں ہے مگر وہ چشمِ بینا کہاں سے آئے جو غیر جانبداری سے حالات و مضمرات کا آفاقی جائزہ لے سکے۔

ادھر امریکن سوسائیٹی فار مسلم اڈوانسمنٹ اور کارڈ وبہ انیشیٹو نامی دو مسلمان اداروں نے نیو یارک میں گراؤنڈ زیرو کے قریب سو ملین ڈالر کی مالیت سے ایک تباہ شدہ مسجد کی جگہ قرطبہ مرکز کے نام سے عظیم الشان مسجد اور کمیونٹی سینٹر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ان اداروں کی ترجمان ڈیزی خان کا کہنا ہے کہ یہ مرکز صحیح اسلامی قدروں کو فروغ دینے اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کیلیے قائم کیا جارہا ہے۔ نو گیارہ سانحہ کے بہت سے متاثرین اس مرکز کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں مگر دوسرے بہت سے امریکی اسے حالات کے سدھار کا ایک ذریعہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ڈیزی خان اور ان کے متزکرہ بالا دو ادارے کس حد تک دوسری بڑی مسلمان تنظیموں کی حمایت حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ مگر ان کا یہ عمل امریکی مسلمانوں کی اس کوشش کی نشاندہی کرتا نظر آتا ہے جو حالات کو معمول پر لانے کےلیے وہ کر رہے ہیں۔

فیصل شہزاد جیسے حالات کا شکار ذہنی و نفسیاتی مریضوں کی انفرادی حرکتوں کو مسلمانوں یا پاکستانیوں سے منسوب کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہےاور امریکہ میں مقیم دوسری قومیتوں کے لوگوں کی طرح پاکستانی امریکن اور مسلمان امریکن اس گھناؤنے جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

Wednesday, March 10, 2010

It happens only in America



Where does it happen that two Pakistani Muslim youth playing Bosnian Nasheeds on radio, interviewing Indian Muslim youth, promoting Rohina Malik, a Pakistani American Muslim writer and actor, who is doing monologs of 5 different Muslim women of different nationalities. Affected by post 911 racism, hate and stereotyping these women talk through Rohina. It happens only in America where despite of all faith phobias, or let me be more clear Islam phobia, Muslims are free to express themselves, not only can promote the message of love, peace and unity freely, but also demonstrate it on air and on the stage.
Kashan and Salman Malik are two Pakistani young men who became mentor to many young Muslims from Balkans, especially from Bosnia. They are involved with this young Muslim population who had been migrated to US in the recent past or were born here after their parents left the war torn country . Islam for them is just a religion which was the religion of their parents and grandparents. There is nothing more to it. These two young Pakistani Muslims along with few other Bosnian Muslims and Husseyn Abiva, a writer and scholar with a deep insight of Balkan history . Soon enough their efforts paid off and more and more of the youth from Bosnia and Albania joined their classes and activities.
Since Last month and a half after accepting the generous offer of Asian Broadcasting network they are hosting Bosnian hour on Tuesdays between 7 and 8 pm at WCGO 1590 AM as part of the new radio series “The Muslim Voice”.
ABN’s “ The Muslim Voice” is targeted to achieve unity and understanding between various factions of the Muslim community in the US. This program can be heard on air locally at 1590 AM daily Monday to Friday between the hours of 7 and 8 in the evening, or, through streaming on www.abnchicago.org. Monday is allocated to Tafseer of the Holy Qur’an by Dr. Irfan Ahmed Khan, Tuesday is “ The Balkan Hour”. Wednesday, Somalian community talks about its issues. Thursday it is “Afro American Muslim Hour” and Friday “Young Muslim Talk Show”.

Rohina Malik a performer, writer and a social activist is catching the eye of the main stream media and the interfaith groups. Her monologues characterizing 5 different Muslim women in UK and US in Post 911 Scenario are breathtaking. When she speaks in any of her characters, her whole persona transforms and it becomes hard to separate her from those charactersIt feels like she gets possessed by the women in her script. She boldly confronts the hatred, racism, bigotry and stereotyping but in such a way that her audience also joins her with tears in their eyes and a feeling of sympathy and compassion for the victims.
http://16thstreettheatre.org/seasonTwo/u...
http://www.southasianplays.org/?page_id=202
Ashhad, a sixteen year old senior at Niles West High School in Skokie Illinois leads the largest student club in the school. The Quran Study Club at Niles West High School is by far one of the largest Muslim students’ clubs in an American school. It has more than hundred members. They all pray Jumah Salath in the prescribed way with Adhan and Khutba. This club not only does Halqas for religious and spiritual enrichment but frequently organize other activities also. Last year they went for a paint ball game. This year they are organizing citywide basket ball tournament with a restriction that each team should have at least 2 players from their Islamic club.
http://www.facebook.com/group.php?v=wall&gid=2209433901#!/group.php?v=info&gid=2209433901
The point is not to promote the events but to commend these young Muslims for their activism and also appreciate the freedom we enjoy in this adopted land of ours. No doubt there are Islamophobes and hate mongers but they are in minority and we as Muslims should not fall into the trap of reverse racism.

Thursday, March 4, 2010


عالمی بستی
ڈاکٹر مجاہد غازی

اس عالمی بستی میں انسانوں کا اژدھام ،گلی گلی، قریہ قریہ، ہر کونے ، ہر موڑپر کھڑا انسان اجنبی اجنبی سا کیوں لگتا ہے؟ اسکی رگ و پے میں دوڑنے والا خون اتنا ارزاں کیوں دکھائ دیتا ہے؟ابھی وہ یہاں کھڑا تھا۔ اپنے جیسا ہی تھا مگر پھر کیوں اجنبیوں کی طرح اپنی جان کے ساتھ ساتھ بے شمار بےگناہ معصوم انسانوں کی جان لے بیٹھتا ہے؟ وہ کون سا لمحہ اور کون سی ساعت ہوتی ہے جو کسی اپنے کو یکدم اجنبی بنادیتی ہے؟ وہ کون سا محرک ہے جو برسوں سے بنے جڑے رشتوں سے لمحہ بھر میں کسی کو آزاد کر دیتا ہے؟ ایسے بےشمار سوال امریکہ اور یورپ کے تحقیقی اور پبلک پالیسی اداروں میں موضوعِ بحث ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ایسے ہی ایک مذاکرے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ مذاکرہ جامعہ شکاگو کے پبلک پالیسی کے شعبہ میں تھا۔ اس مذاکرے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دعوت پر آئے ہوئے آٹھ پاکستانی صحافی شریک تھے۔ میں ایک مقامی صحافی کی حیثیت سے اس میں شرکت کر رہا تھا۔ مذاکرے کا موضوع" پاکستان و امریکہ کے باہمی تعلقات" تھا۔ ابھی مذاکرہ شروع نہیں ہوا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار میرے پاس آئے اور ایک پاکستانی صحافی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی تشویش سے مجھے آگاہ کیا ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس مذاکرے کی پریس رپورٹنگ ہو۔ اس ملک میں جہاں ذرائع ابلاغ کو ہر قسم کی آزادی ہے، میرےہی ملک سے آئے ہوئے ایک صحافی نے مجھ پر قدغن لگوادی۔ ایک پاکستانی ٹی وی چینل کی نمائندگی کے ناطے میں ریکارڈنگ کے تمام ذرائع سے لیث تھا۔ ان کے علاوہ وفد کے دوسرے تمام ارکان اس بات کے خواہشمند تھے کہ ان کے اس مذاکرے کی پر یس رپورٹنگ ہو۔ خود میزبان جامعہ کو کوئ اعتراض نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ موصوف کیوں اس مذاکرے کی ریکارڈنگ اور رپورٹنگ کہ حق میں نہ تھے۔ مذاکرے کی ابتدا ء سے لے کر اختتام تک انھوں نے ایسے ایسے انکشافات کیے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئ واسطہ نہ تھا۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے میڈیا پر دائیں بازو کا مذہبی انتہا پسند طبقہ قابض ہے۔ بقول ان کے ڈرون حملے بلکل درست ہیں اور ان کی وجہ سے کبھی کوئ بے گناہ شہری ہلاک نہیں ہوا اور پاکستانی قوم کی اکثریت اس اقدام کے حق میں ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ انھوں نے امریکی فوج کو نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے امریکی حکومت کو یہ رائے دی کہ افغانستان سے فوجیں واپس نہ بلائی جائیں۔ وفد میں شامل ایک سینیئر صحافی نے ہمیں بعد میں بتایا کہ وہ پاکستان میں ایک ٹی وی شو کے میزبان ہیں۔ وہاں ان کا کچھ اور رنگ ہوتا ہے اور یہاں یہ کچھ اور ہی رنگ میں نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے ازراہِ تفنن کہا کہ شائد متذکرہ صحافی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اپنی نوکری پکی کرنے کے چکر میں ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہمیں دوسرے دن حکومت کے ایک اہل کار نے ہمیں کال کرکے ایک مرتبہ پھر اس بات کی یقین دہانی حاصل کی کہ ہم اس مذاکرے کی رپورٹنگ تو نہیں کر رہے۔ گو کہ مجھ سمیت اس وفد کے ارکان نے بھی اس صحافی کے گمراہ کن انکشافات کی پرزور تردید کی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اپنوں کو اجنبی بنادیتے ہیں اور ان کو اپنے ضمیر کا سودا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔امریکہ میں ایک بڑے تحقیقی ادارے کے تازہ ترین سروے کے مطابق ڈرون حملوں اور ان کی وجہ سے ہونے والی اموات اور بیرونی جارحیت کا احساس دو ایسے عوامل ہیں جو خودکش حملہ آوروں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہاں ہمارا ہی ایک فاضل صحافی ان اقدامات کی حمایت میں دلائل دے رہا تھا، انہیں جائز قرار دے رہا تھا۔ صحافی ہوتے ہوئے آزادئ صحافت پر قدغن لگو ا رہا تھا۔ کل جب محترم زبیراحمد ظہیرنے مقدمہ میں کالم لکھنے کی دعوت دی تو ان کی خواہش تھی کے ہم طبیب ہونے کے ناطے صحت و بیماری کے موضوع پر کچھ لکھیں مگر اب اسے کیا کہیں کہ قلم خودبخود اس بیماری کے بارے میں لکھتا چلا گیا جو اس عالمی بستی میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وطن فروشی اور ضمیر فروشی کی بیماری، ہوس و لالچ کی بیماری، خودغرضی و خودپرستی کی بیماری۔ کاش کہ اس بیماری کو دور کرنے کے لیے محبت و اخوت، اتحاد ویگانگت اور بےغرضی و بے لوثی کے اجزاء سے ایسا معجون تیار ہو جو انسان کے رگ و پےمیں جذب ہوکر ان بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکےاور اسے وطن کی محبت سے مالامال کر دے۔ ہم جب پاکستان سے با ہر جاتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے سفیر ہیں۔ ہمارا ہر عمل ہماے قومی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم اس پاکستان سے آئے ہیں جوہزاروں جانوں کو قربان کرکے حاصل کیا گیا ہے۔ جو پاک سرزمین ہے۔ جو قوتِ اخوت، عوام ہے۔ جو سایئہ خدائے ذولجلال ہے۔جو میرا ہے،تمہارا ہے اور ہم سب کا ہے۔ وطن سے ہزاروں میل دور امریکہ اور یورپ میں بسے تارکینِ وطن کی اکثریت وطن کے حالات کی وجہ سے ویسے ہی فکرمند رہتی ہے، ہر لمحہ بس ایک ہی دعا لبوں پر رہتی ہےکہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔اسے تا قیامت قائم و دائم رکھے۔ ہماری صفوں میں موجود وطن دشمن کالی بھیڑوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
mujahidghazi@live.com