عالمی بستی
ڈاکٹر مجاہد غازی
اس عالمی بستی میں انسانوں کا اژدھام ،گلی گلی، قریہ قریہ، ہر کونے ، ہر موڑپر کھڑا انسان اجنبی اجنبی سا کیوں لگتا ہے؟ اسکی رگ و پے میں دوڑنے والا خون اتنا ارزاں کیوں دکھائ دیتا ہے؟ابھی وہ یہاں کھڑا تھا۔ اپنے جیسا ہی تھا مگر پھر کیوں اجنبیوں کی طرح اپنی جان کے ساتھ ساتھ بے شمار بےگناہ معصوم انسانوں کی جان لے بیٹھتا ہے؟ وہ کون سا لمحہ اور کون سی ساعت ہوتی ہے جو کسی اپنے کو یکدم اجنبی بنادیتی ہے؟ وہ کون سا محرک ہے جو برسوں سے بنے جڑے رشتوں سے لمحہ بھر میں کسی کو آزاد کر دیتا ہے؟ ایسے بےشمار سوال امریکہ اور یورپ کے تحقیقی اور پبلک پالیسی اداروں میں موضوعِ بحث ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ایسے ہی ایک مذاکرے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ مذاکرہ جامعہ شکاگو کے پبلک پالیسی کے شعبہ میں تھا۔ اس مذاکرے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دعوت پر آئے ہوئے آٹھ پاکستانی صحافی شریک تھے۔ میں ایک مقامی صحافی کی حیثیت سے اس میں شرکت کر رہا تھا۔ مذاکرے کا موضوع" پاکستان و امریکہ کے باہمی تعلقات" تھا۔ ابھی مذاکرہ شروع نہیں ہوا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار میرے پاس آئے اور ایک پاکستانی صحافی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی تشویش سے مجھے آگاہ کیا ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس مذاکرے کی پریس رپورٹنگ ہو۔ اس ملک میں جہاں ذرائع ابلاغ کو ہر قسم کی آزادی ہے، میرےہی ملک سے آئے ہوئے ایک صحافی نے مجھ پر قدغن لگوادی۔ ایک پاکستانی ٹی وی چینل کی نمائندگی کے ناطے میں ریکارڈنگ کے تمام ذرائع سے لیث تھا۔ ان کے علاوہ وفد کے دوسرے تمام ارکان اس بات کے خواہشمند تھے کہ ان کے اس مذاکرے کی پر یس رپورٹنگ ہو۔ خود میزبان جامعہ کو کوئ اعتراض نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ موصوف کیوں اس مذاکرے کی ریکارڈنگ اور رپورٹنگ کہ حق میں نہ تھے۔ مذاکرے کی ابتدا ء سے لے کر اختتام تک انھوں نے ایسے ایسے انکشافات کیے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئ واسطہ نہ تھا۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے میڈیا پر دائیں بازو کا مذہبی انتہا پسند طبقہ قابض ہے۔ بقول ان کے ڈرون حملے بلکل درست ہیں اور ان کی وجہ سے کبھی کوئ بے گناہ شہری ہلاک نہیں ہوا اور پاکستانی قوم کی اکثریت اس اقدام کے حق میں ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔ انھوں نے امریکی فوج کو نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے امریکی حکومت کو یہ رائے دی کہ افغانستان سے فوجیں واپس نہ بلائی جائیں۔ وفد میں شامل ایک سینیئر صحافی نے ہمیں بعد میں بتایا کہ وہ پاکستان میں ایک ٹی وی شو کے میزبان ہیں۔ وہاں ان کا کچھ اور رنگ ہوتا ہے اور یہاں یہ کچھ اور ہی رنگ میں نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے ازراہِ تفنن کہا کہ شائد متذکرہ صحافی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اپنی نوکری پکی کرنے کے چکر میں ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہمیں دوسرے دن حکومت کے ایک اہل کار نے ہمیں کال کرکے ایک مرتبہ پھر اس بات کی یقین دہانی حاصل کی کہ ہم اس مذاکرے کی رپورٹنگ تو نہیں کر رہے۔ گو کہ مجھ سمیت اس وفد کے ارکان نے بھی اس صحافی کے گمراہ کن انکشافات کی پرزور تردید کی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اپنوں کو اجنبی بنادیتے ہیں اور ان کو اپنے ضمیر کا سودا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔امریکہ میں ایک بڑے تحقیقی ادارے کے تازہ ترین سروے کے مطابق ڈرون حملوں اور ان کی وجہ سے ہونے والی اموات اور بیرونی جارحیت کا احساس دو ایسے عوامل ہیں جو خودکش حملہ آوروں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہاں ہمارا ہی ایک فاضل صحافی ان اقدامات کی حمایت میں دلائل دے رہا تھا، انہیں جائز قرار دے رہا تھا۔ صحافی ہوتے ہوئے آزادئ صحافت پر قدغن لگو ا رہا تھا۔ کل جب محترم زبیراحمد ظہیرنے مقدمہ میں کالم لکھنے کی دعوت دی تو ان کی خواہش تھی کے ہم طبیب ہونے کے ناطے صحت و بیماری کے موضوع پر کچھ لکھیں مگر اب اسے کیا کہیں کہ قلم خودبخود اس بیماری کے بارے میں لکھتا چلا گیا جو اس عالمی بستی میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وطن فروشی اور ضمیر فروشی کی بیماری، ہوس و لالچ کی بیماری، خودغرضی و خودپرستی کی بیماری۔ کاش کہ اس بیماری کو دور کرنے کے لیے محبت و اخوت، اتحاد ویگانگت اور بےغرضی و بے لوثی کے اجزاء سے ایسا معجون تیار ہو جو انسان کے رگ و پےمیں جذب ہوکر ان بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکےاور اسے وطن کی محبت سے مالامال کر دے۔ ہم جب پاکستان سے با ہر جاتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے سفیر ہیں۔ ہمارا ہر عمل ہماے قومی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم اس پاکستان سے آئے ہیں جوہزاروں جانوں کو قربان کرکے حاصل کیا گیا ہے۔ جو پاک سرزمین ہے۔ جو قوتِ اخوت، عوام ہے۔ جو سایئہ خدائے ذولجلال ہے۔جو میرا ہے،تمہارا ہے اور ہم سب کا ہے۔ وطن سے ہزاروں میل دور امریکہ اور یورپ میں بسے تارکینِ وطن کی اکثریت وطن کے حالات کی وجہ سے ویسے ہی فکرمند رہتی ہے، ہر لمحہ بس ایک ہی دعا لبوں پر رہتی ہےکہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔اسے تا قیامت قائم و دائم رکھے۔ ہماری صفوں میں موجود وطن دشمن کالی بھیڑوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
mujahidghazi@live.com
12 comments:
Mujahid Uncle, the text is pretty tiny, can you please increase the size of it???
go to explorer tools and zoom in
Great start
لکھتے خوب لکھتے،مجاہد بھائی آپ شاہین کیا میاں،کیا لکھتے،بھیؑ جو بھی ہیں۔آپ ہی جیسے لوگ ہی بہتری لائیں گے۔آمین۔آپ تو جانتے ہیں کہ میں آپ کا دیوانا ھوں۔آپ کا بلاگ میں باقعدگی سے پڑھوں گا۔کیوں کہ آپ سے مجھے جلا ملتی ہے ۔خدا آپ کا حامدوناصر۔
کیا میاں،کیا لکھتے،بھیؑ جوبھی لکھتے خوب لکھتے،مجاہد بھائی آپ شاہین ہیں۔آپ ہی جیسے لوگ بہتری لائیں گے۔آمین۔آپ تو جانتے ہیں کہ میں آپ کا دیوانا ھوں۔آپ کا بلاگ میں باقعدگی سے پڑھوں گا۔کیوں کہ آپ سے مجھے جلا ملتی ہے ۔خدا آپ کا حامدوناصر۔
براے مہربانی پہلے والے پوسٹ کو درگذر کیجے گا۔
nice article!
آپ کے ارٹیکل میں چُھپی سچایئ کی میں داد دیتی ھوں۔ میں آپ کے سب چاھنے والوں میں سب سے زیادہ چاھنے والی ھوں غازی انکل۔ اور یہ بات آپ بھی اچھی طرح جانتے ھیں۔ میں بھِی آپ کے ارٹیکل پڑھوں گی۔
Masha'Allaah,Mujahid kya sahih tasveer khaenchi hae.meri dua hae k Allah kare ho zor-e-qalm aur ziada.beta tum hamesha meri duaun mein hote ho....Aapa
hi my friend, you have a GREAT BLOG!!! I am a friend from Greece
http://diaforetikimatia.blogspot.com
The site above is my site. Please visit me my friends
I m a new reader of this site.What u have written is correct.May be these people have some kind of inferiority complex in front of western world.They praise and try to please them.Why,they know better.They just forget whatever nationality or position they have their pakistani identity will remain with them whether they like it or not.We pakistani love our country and condemn such hypocrates who participate in the name of pakistan and speak to harm its image.
Post a Comment