Sunday, May 5, 2013

دِیان آلیان دنیا بھر کے یتیم بچوں کی خیر خواہ

 

دِیان آلیان دنیا بھر کے یتیم بچوں کی خیر خواہ

دِیان کا تعلق انڈونیشیا میں وسطی آسیح کے شہر تاکنگون سے ہے۔ یہ  مغربی سماترا کے بالائی حصہ میں  ایک بڑے تالاب کے کنارے آباد ایک چھوٹا سا شہر ہے جو اب تک اپنی کوفی 
انڈونیشیا میں یتیم بچوں کے ساتھ
  کے لیے مشہور تھا مگر اب دِیان آلیان اس کی شہرت کا سبب بن گئی ہیں۔  2004 کی سونامی نے اس علاقہ میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ دِیان اس وقت امریکہ کی ایک بڑی کمپنی میں اعلیٰ عہدہ پر فائض تھیں۔ سونامی کی تباہ کاری کے دو ہفتہ بعد دِیان تاکنگون میں  اپنے ہموطنوں کی مدد کے لیے جا پہنچیں۔ سونامی کی افریت ان کے خاندان کے چالیس افراد کو نگل چکی تھی۔ اپنے اطراف  پھیلی ہوئی تباہ کاری اور  سونامی کے نتیجہ میں یتیم ہونے والے سینکڑوں بچوں کو دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا ۔ امریکہ واپس آکر انھوں نےآسیح میں ایک یتیم خانہ بنانے کی ٹھان لی۔ کچھ دوستوں کو ساتھ ملایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں بھٹکے ہوئے بے یار و مدد گار یتیم بچوں کے لیے یتیم خانہ بنا ڈالا۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھا کہ اس یتیم خانے میں گھر جیسا ماحول ہو۔ بچوں کی تعلیم  اور صحت کا اسی طرح خیال رکھا جائے جیسا کوئی اپنے گھر والوں کا رکھتا ہے۔ یہ شائد اللہ کی طرف سےہدایت تھی کہ اس عظیم خاتون نے اس کے بعد دنیا بھر کے یتیم بچوں کا سہارا بننے کا ارادہ کر لیا ۔  جب پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچائی اور بےشمار بچے یتیم ہوگئے تو اس نیک صفت خاتون نے وہاں بھی ایک یتیم خانہ بنا ڈالا۔ پھر اس کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں ۔ یکے بعد دیگرے دنیا کے مختلف ممالک میں یتیم خانے بنتے چلے گئے۔ بنگلہ دیش  اور سری لنکا میں اسی طرح کےگھر بنانے کے بعد  اب کمبوڈیا اور مراکش میں یتیموں کے لیے تمام سہولتوں سے لیس گھر زیرِ تعمیر ہیں۔ ان کی تنظیم  گِو لائیٹ فائونڈیشن(Givelight Foundation) میں سینکڑوں رضاکار ہیں  جو دِیان کی شخصیت اور ان کے کام سے متاثر ہوکر دل و جان سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور دامِ درمِ سخنِ  جس طرح بھی ممکن ہو ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کے یتیم خانوں سے اب ہونہار طالبِ علم اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فراغت پاکر  معاشرے میں نام پیدا کر رہے ہیں۔  میں نے ان یتیم خانوں کی عمارتوں  اور ان میں رہنے والے بچوں کی تصویریں دیکھی ہیں ۔  کمپیوٹروں، کتابوں سے بھری ہوئی لائبریریوں ، صاف ستھرے کھانے اور کھیلنے کے کمروں اور بہترین فرنیچر سے مزین سونے کے کمروں کو دیکھ کر یہ لگ ہی نہیں رہا کہ یہ یتیم خانے ہیں۔  مجھے تو آج بھی وہ روایتی یتیم خانے یاد ہیں جوپاکستان اور  ہندوستان  میں ہوتے ہیں ۔ جہاں بچوں سے بھیک تک منگوائی جاتی ہے، کھانے کو روکھا سوکھا دے دیا جاتا ہے۔ بچوں کا مصرف مہتمم حضرات کی خدمت اور شہر یا بستی میں غم  ا ورخوشی کے مواقع پر جاکرقرآن ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اکثر یتیم خانوں میں تشدد اور جسمانی زیادتی کے واقعات بھی عام ہیں۔  حضورِ اکرم ؐ نے اپنی دو انگشتِ مبارک ملا کر کیا یہ نہیں کہا تھا کہ جو  کسی یتیم کا خیال رکھے گا وہ  باغِ ارم میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا؟  پھر نجانے کیوں ہم  یتیم و نادار بچوں کے ساتھ بد سلوکی اور قابلِ نفرت سلوک روا رکھتے ہیں؟  اس وقت گو لائیٹ فائونڈیشن تقریباً ایک ہزار بچوں کی مکمل ذمہ داری اٹھا رہی ہے۔ 2015 تک اس کا حدف 1500یتیم بچے بچیوں کی  مکمل سرپرستی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر   سینکڑوں یتیم بچوں کی سرپرستی ماہانہ الائونس کی صورت میں  کی جاتی ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ دور نہیں اپنے خاندان کے اندر ہی جو یتیم، غریب اور بے سہارہ بچے ہیں ان کو پابندی کے ساتھ مدد پہنچتی رہے۔آج کل امریکہ  کے مختلف شہروں میں  کمبوڈیا اور مراکش کے مراکز کے لیے فنڈ ریزنگ ڈنر ہو رہے ہیں ۔ امید ہے کہ دِیان آلیان نہ صرف ان دو مراکز ہی کے لیے نہیں بلکہ اور دوسرے مراکز تعمیر کرنے کے لیے مسلمانوں کی بھرپور مدد حاصل کر سکیں گی۔ ان کے ان گھروں کے نگران بچوں کے لیے حقیقت میں ماں اور باپ جیسا تعلق رکھتے ہیں۔ جہان انہیں سونے کا نوالہ کھلاتے ہیں وہیں اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں، قرآن کی تلاوت کریں اور باقائدگی سے نماز ادا کریں۔ ان کی  فائونڈیشن   ان بچوں کی صحت کا خصوصی خیال رکھتی ہے اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔   کیا ہی اچھا ہو کہ شکاگو میں رہنے والے مسلمان اس کا انتظار کیے بغیر کہ کون انہیں ذاتی طور پر مدعو کر رہا ہے اللہ کی رضا کے لیے اور اس کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خود  ہی اس فائونڈیشن کی ویبسائٹ  پر جاکر  اس کی مدد کریں
پاکستان میں یتیم بچیوں کے ساتھ
givelight.org

صبا ہوم پاکستان میں گو لائف اور اپنا کا مشترکہ پراجیکٹ




یتیم بچوں کے ساتھ ایبٹ آباد کے اسکول کے باہر
۔ 

No comments: