Sunday, May 5, 2013





 جسمانی طور پر معذور افراد کا معاشرے پر حق
وھیل چیر ، دنیا کے ایک سو پانچ ملین افراد کی ضرورت
شکاگو کہ ایک مشہور ریسٹورینٹ کے ہال میں  نوجوان عاطف مون اپنی وھیل چیر پر بیٹھا نہایت درد کے ساتھ یہ شکوہ کر رہا تھا کہ ہماری بیشتر مساجد اور کمیونٹی سینٹرز میں اس جیسے افراد کے لیےآمد و رفت کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ اس  کی اِس شِکایت کی بنیاد وہ واقعہ تھا جس کو سناتے ہوئے اس کی آواز بھرّا گئی اور آنکھیں نم سی ہوگئیں۔ بقول اُس کے، ای میل پر ملی ایک دعوت کے جواب میں جب اس نے مسجد انتظامیہ کو کال کی اور اپنی معذوری کا بتاتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا جلسہ گاہ میں پہنچنے کے لیے وھیل چیر ریمپ موجود ہے۔ دوسری طرف سے جواب ملا۔”نہیں یہ جلسہ دوسری منزل پر ہو رہا ہے اور مسجد میں لفٹ کی سہولت موجود نہیں”۔  عاطف ہال میں موجود دو سو نوجوان مسلمان بچوں اور بچیوں کو پیغام دے رہا تھا کہ جب بھی وہ کسی تقریب کا اہتمام کریں تو اس بات کو ذہن میں رکھ کر کریں کہ آنے والوں میں کوئی وھیل چیر پر بھی ہوسکتا ہے۔ عاطف مون اپنی معذوری کے باوجود ایک کامیاب انسان ہی نہیں ایک اچھا لیڈر بھی ہے۔ بچپن میں اسپائنل کورڈ کے کینسر کی سرجری نے اس کی جان تو بچالی مگر اسے زندگی بھر کے لیے پیروں کی معذوری دے گئی۔  یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ،لاس انجیلس سے بزنس اکنامکس میں بی ایس کرنے کے بعد  اسی جامعہ سے  اس نے اسپورٹس مینیجمنٹ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ فوکس اسپورٹس اور این بی سی میں کام کیا ۔ صدر اوبامہ کے لیے وھائٹ  ہاؤس میں انٹرن شپ کی اور پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مدد کے لیے سینٹر فار گلوبل انڈراِسٹینڈنگ  کی بنیاد رکھی ۔  متذکّرہ تقریب ان تئیس طلبہ کو اسناد دینے کے لیے منعقد کی گئی تھی جنہیں  یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے امریکن مسلم سِوک لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ نے امریکہ کے مختلف شہروں سے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے چنا تھا اور ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کےلیےانہیں فیلوشپ سے نوازا تھا۔  
عاطف مون کا مسئلہ وھیل چیر نہیں بلکہ اس کی نقل و حمل کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دنیا کی آبادی کا ڈیڑھ فیصد (%2/1 1)یعنی تقریباً ایک سو پانچ ملین افراد  اپنی نقل و حرکت کے لیے وھیل چیر کے محتاج ہیں۔ تیسری دنیا میں ان کی تعداد پچیس ملین سے تجاوز کر رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کے پاس وھیل چیر ہے؟  جی نہیں، صرف ایک محدود تعداد  کو یہ سہولت حاصل ہے۔  تیسری دنیا میں خصوصیت سے وھیل چیر سے محروم افراد کی تعداد تین چوتھائی کے قریب ہے۔  پاکستان، بنگل دیش ، افغانستان، اور افریقہ کے بیشتر ممالک  میں وھیل چیر نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر افراد نارمل زندگی  سے محروم ہیں، وہ یا تو ایک جگہ پڑے پڑے ڈپریشن اور دوسری ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں یا بردہ فروشوں کے ہاتھوں لگ کےگداگری کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس آئے دن مجروح ہوتی رہتی ہے کیونکہ معاشرہ بھی انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔   یہاں امریکہ میں عاطف مون کی طرح ایک اور
شخص ایسے ہی افراد کی مدد میں رات دن جدوجہد کر رہا ہے۔ محمد یوسف کا تعلق مشی گن سے ہے ۔ بچپن میں پولیو کی وجہ سے پیروں کی کمزوری کا شکار ہونے کے باوجود  عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد سے الیکٹرانک اور کمیونیکیشن انجینیرنگ کرنے کے بعد وین اسٹیٹ یونی ورسٹی سے کمپیوٹر انجینیرنگ میں ماسڑرز کیا اور پھر اس کے بعد جسمانی طور پر معذور انسانوں کی مدد کرنے کے لیے اس میدان میں کئی اسناد  حاصل کیں۔ اِکولی ایبل (EqaullyAble.org) کے نام سے نان پروفٹ  تنظیم کاآغاز کیا اوردنیا بھر میں ہزاروں معذور افراد کو وھیل چیر اور دوسری مددگار  اشیا فراہم کر کے ان کی زندگی کو مقصدیت اور عزت نفس سے آشنا کیا۔ 

اب  ان کی تنظیم نے انگلستان کی مشہور عالمی تنظیم موٹی ویشن یوکے( Motivation UK) کے ساتھ مل کر ۱۰۰۰ وھیل چیر تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں میں رہنے والے معذور افراد کو  بھیجنے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔  دس ملکوں کو سو سو وھیل چیر بھیجی جائیں گی۔ اس فہرست میں پاکستان  بنگلہ دیش اور  افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔  27 اپریل کو مونٹیز بینکوئیٹ میں اس مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے۔  کیا ہی اچھا ہو  اگر شکاگو میں رہنے والے اس باہمت شخص کی کوششوں کا ساتھ دیں اور یہ ثابت کر دیں کہ انہیں بھی   دنیا کے معذور انسانوں  کا درد ہے۔ کاروباری اور غیر کاروباری ادارے اس تقریب کو اسپانسر کرکے اپنی انسان دوستی کا ثبوت دیں۔

ہم میں سے کتنے جسمانی طور پر فٹ فاٹ افراد اس  کا ایک حصہ بھی کر پاتے ہیں جو عاطف مون اور محمد یوسف  کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے جب تک ہمارے درمیان ان جیسے روشن ستارے ہیں  ایک روشن صبح کی امید ختم نہیں ہو پائے گی۔
 

No comments: