Sunday, May 5, 2013

 
 
کیا پاکستانی امریکن ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے؟

 
یہ سوال اس وقت ہر ذی شعور پاکستانی امریکن کے ذہن میں ہے۔ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور پاکستانی سرکار کےدرمیان ایک ایسی رسہ کشی جاری ہے جس کا انجام ہر کس و ناکس کی سمجھ سے باہر ہے۔آخر وہ کونسے عناصر ہیں جو اس معاملے میں پسِ پردہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ جس طرح مبینہ طور پر انتخابی حلقوں کی حدبندیوں کے ذریعہ سیاسی قوتوں کے اثر و رسوق کو متاثر کیا جا سکتا ہے اسی طرح تارکینِ وطن  کے اس وسیع حلقے کو  کچھ نادیدہ ہاتھ ووٹ کے حق سے محروم رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔  اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائینس کی ضرورت نہیں۔ مختلف پیمانوں سے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ  بیرونِ ملک رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کی ہمدردیاں تحریکِ انصاف کے ساتھ ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کو تباہی و بربادی کی اس دندل سے اگر کوئی جماعت نکال سکتی ہے تو وہ عمران خان کی تحریکِ انصاف کے سوا کوئی اور نہیں۔ خاص طور پر ملک سے باہر رہنے والے نوجوان جن میں سے بہت سوں نے پاکستان میں وقت بھی نہیں گزارا، اس وقت عملی طور پر پی
 ٹی آئی  کی قوت بنے ہوئے ہیں۔ ان باصلاحیت اور ذہین نوجوانوں کے ساتھ ملک سے باہر رہنے والی خواتین کی اکثریت بھی پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی کی خواہاں ہے۔  تحریکِ انصاف کی اس مقبولیت سے مخالف سیاسی قوتیں  بری طرح ہراساں ہیں اس لیے کہ یہ انتخابات میں ایک فیصلہ کن سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔   میرے ایک دوست،  مربی، سینیئر صحافی عظیم میاں نے بھی کچھ عرصہ پہلے اس موضوع پر ایک فکر انگیز کالم لکھا تھااور کم و بیش انہی خدشات کا اظہار کیا تھا ۔  دوسرے بہت سے تجزیہ کار مختلف ٹاک شوز اور کالموں میں ان حقائق کی نشاندہی کر رہے ہیں۔  بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی وابستگی جن جماعتوں کے ساتھ رہی ہے وہ  ان کے لیڈروں کی آمد کے موقع پر عشائیوں اور دعوتوں تک ہی محدود رہی ہے۔   ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون باری باری حکومت بناتی رہیں اور  یہاں ان کے حمایتی دعوتوں ، عشائیوں اور تحفے تحائف کے بدلے پاکستان میں اپنے کاروباری اداروں کے لیے پرمٹ، لائسنس اور سرکاری گرانٹس  کے علاوہ سرکاری نوکریوں میں عزیز رشتہ داروں کی بھرتی کا بھی انتظام کرتے رہے۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان دو بڑی پارٹیوں کے چاہنے والوں میں مختلف ادوار میں پھوٹ پڑتی رہی اور یہ کئی کئی دھڑوں میں بٹتی چلی گئیں۔ اس کی وجہ ان جماعتوں میں شخصیت پرستی اور اقرباپروری کا  رجحان اور نظریاتی سیاست  کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف جماعتِ اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ، تحریکِ انصاف کی طرح وہ جماعتیں ہیں جو اس فتنہ سے مبرّا دکھائی دیتی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ گو کہ الطاف حسین  صاحب کی شخصیت کے زیرِ اثر ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس جماعت نے بھی عام آدمی کو ایوانوں میں پہنچایا ہے۔  اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اہم فیصلے اس کی رابطہ کمیٹی  کرتی ہے، جس میں یقیناً الطاف حسین صاحب کا مشورہ شامل ہوتا ہےبلکل اسی طرح جیسے جماعتِ اسلامی کے فیصلے مجلسِ شوریٰ کرتی ہے اور امیرِ جماعتِ اسلامی اس شوریٰ کا حصہ ہوتے ہیں۔ بیرونِ پاکستان ان دونوں جماعتوں کے بہت سے کارکن اور ہمدرد موجود ہیں، چنانچہ ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ انہیں ووٹنگ کا حق دینے کے کسی بھی عمل میں رکاوٹ بنیں گے۔    اس استدلال سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ اگر کسی کو بیرونِ پاکستان مقیم پاکستانیوں سے خطرہ لاحق ہے تو وہ صرف وہی دو بڑی جماعتیں ہیں جو کسی طور یہ نہیں چاہیں گی کہ سات ملین بیرونِ ملک آباد پاکستانی جو  بارہ سے تیرہ بلین ڈالرسالانہ زرِ مبادلہ بھیج کر پاکستان کی معیشت مضبوط کرتے رہے ہیں، الیکشن میں حصہ لے کر انہیں حکومت کے ایوان سے باہر پھینک دیں۔ ان کا یہ خوف ان کی ماضی کی کارکردگی کی روشنی میں بے وجہ بھی نظر نہیں آتا۔ ہر چور اور ہر مجرم کو اپنے انجام کی خبر ہوتی ہےمگر وہ آخر دم تک اس سے بچنے کی تدبیر کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کی عوام اب جاگ چکی ہے۔ اسے اس حقیقت کا کلی طور پر ادراک ہے کہ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔ شیر کا روپ دھار لینے سے کوئی شیر نہیں ہوجاتا۔ تیر کمان ہاتھ میں لے کر کوئی اچھا تیر انداز نہیں بن سکتا۔ بلے بازی وہی کر سکتا ہے جس کو اس میں مہارت ہو۔ اس وقت  پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ الیکشن سے چند دن پہلے ہمیں ووٹنگ کا حق مل جائے۔  اگر ایسا ہو تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ آئیے اس بات کا عہد کریں کہ  اگر انشاللہ ایسا ہو جائے تو ہم اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر پاکستان کے بہتر اور تابندہ مستقبل کے لیے گھروں سے خود بھی نکلیں گے اور اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو بھی مجبور کریں گے کہ وہ مقررہ پولنگ اسٹیشن جاکریا آن لائن جیسی بھی سہولت میسر ہو  اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔  سات ملین پاکستانی جو دنیا کے 106ممالک میں آباد ہیں، ان کا پینسٹھ فیصد سعودی عرب، متحدہ امارات،انگلستان اور امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ صرف ان چار ممالک کا پاکستانی اگر چاہے تو پاکستان کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ پاکستان کسی جماعت یا کسی وڈیرے کی جاگیر نہیں، یہ  ہمارا ہے۔ہم جو عوام ہیں، مزدور ہیں، دہقان ہیں، طالبِ علم ہیں، استاد ہیں ،   ہم جو مادرِ وطن کے رکھوالے ہیں، ہم جو کوہساروں کے، میدانوں کے ، گائوں کے اور شہروں کے باسی ہیں ، یہ دھرتی ہماری دھرتی ہے ، اس میں بہتے ہوئے دریا، پھوٹتی ہوئی کونپلیں، کھیتوں کھلیانوں میں بکھرے ہوئے رنگ یہ سب ہمارے ہیں ۔ ع
یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے

آج اس وطن سے ہماری محبت کی آزمائش ہے۔ دیکھتے ہیں کون اس آزمائش پر پورا اترتا ہے۔ اگر ہم ووٹ کے حق سے محروم کر دیے جاتے ہیں تو اس کا بھی ایک توڑ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک آج ہی سے اس مشن میں لگ جائے کہ اپنے ووٹ کے بدلے میں پاکستان میں موجود دوست احباب اور رشتہ داروں کو الیکشن میں ووٹ ڈالنے اور حصہ لینے کی ترغیب دے۔ اگر ایک ایک فرد احساسِ ذمہ داری سے اس امر کو یقینی بنالے کہ اس کے ووٹ کے بدلے میں ایک سے زیادہ ووٹ پاکستان میں پڑ جائیں تو کوئی طاقت بھی ہمیں ہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔   گزشہ چند ہفتوں میں مختلف سماجی بہبود کے اداروں کی فنڈ ریزنگ میں کپتان کے بلے نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان کے دستخط شدہ بلے کلثوم فائو نڈیشن سے لیکر ہیومن ڈویلپمنٹ فائنڈیشن اور حال ہی میں زندگی ٹرسٹ  کی تقاریب میں ہزاروں ڈالر میں نیلام ہوئے ہیں۔ کپتان کی غیر موجودگی میں جب ان کا بلا غریبوں کے لیے رقم جمع کرکے ان کے حالات کو سدھارنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے تو ذرا سوچیے حکومت میں آکر یہ کیا کمال نہیں دکھائے گا۔ذرا سوچیے۔ 

No comments: